ابھی ضد نہ کر، دلِ بے خبر
کہ پسِ ہجومِ ستم گراں !
ابھی کون تجھ سے وفا کرے؟
ابھی کس کو فرصتیں اس قدر
کہ سمیٹ کر تیری کرچیاں
تیرے حق میں خدا سے دعا کرے۔
کہیں درد ہے تو ہوا کرے
کوئی چوٹ ہے تو کھلا کرے
کبھی یوں بھی ہو کہ سرِ افق
تیرے دکھ کا چاند دمک اٹھے
کوئی ٹیس خود سے چمک اٹھے۔