لوگوں کو اتنا مذہبی بنا دو کہ وہ محرومیوں کو قسمت سمجھیں ظلم کو آزمائش سمجھ کر صبر کر لیں،حق کے لئے آواز اٹھانا گناہ سمجھیں،غلامی کو اللہ کہ مصلحت قرار دیں اور قتل کو موت کا دن معین سمجھ کر چپ رہیں.
سعادت حسن منٹو📖
عورتیں بڑی سخت دماغ ہوتی ہیں،یوں تو انہیں صنفِ نازک کہا جاتا ہے مگر جب واسطہ پڑے تومعلوم ہوتا ہے کہ ان جیسی صنفِ کرخت دنیا کے تختے پر اور کوئی نہیں۔
سعادت حسن منٹو 📖
لمبے لمبے جلوس نکال کر، منوں بھاری ہاروں کے نیچے دب کر، چوراہوں پر طویل طویل تقریروں کے کھوکھلے الفاظ بکھیر کر، ہماری قوم کے یہ نام نہاد رہنما صرف اپنے لئے ایسا راستہ بناتے ہیں جو عیش و عشرت کی طرف جاتا ہے۔
سعادت حسن منٹو 📖
میں وہ کپکپی ہوں جو ایک کنواری لڑکی کے جسم پر طاری ہوتی ہے جب وہ غربت سے تنگ آ کر پہلی مرتبہ ایوانِ گناہ کی جانب قدم بڑھانے لگے۔
آؤ ہم سب کانپیں !
سعادت حسن منٹو 📖
"تمہاری نظر میں ناچنے والی طوائف ہوگی،میری نظر میں پورا معاشرہ ناچتا ہے جو معاشرہ قوم کی جوان بیٹیوں کو دو نوالے نہ دے سکے اُس قوم میں طوائف بھی کسی شریف زادی سے کم نہیں۔
سعادت حسن منٹو 📖
لیڈر جب آنسو بہا کر لوگوں سے کہتے ہیں کہ مذہب خطرے میں ہے تو اس میں کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ مذہب ایسی چیز ہی نہیں کہ خطرے میں پڑ سکے، اگر کسی بات کا خطرہ ہے تو وہ لیڈروں کا ہے جو اپنا اُلّو سیدھا کرنے کے لئے مذہب کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔
سعادت حسن منٹو📖
چور نے چینی کی بوری چرائی اور حادثاتی طور پر کنویں میں گرگیا لاش نکالی گئی تو کنویں کا پانی میٹھا تھا ، ساتھ ہی قبر پر چڑھاوے چڑھنے لگے اور کنویں کا پانی شفاء بخش قرار پایا۔
سعادت حسن منٹو 📖
مذہب ، دین ، ایمان ، دھرم ، یقین ، عقیدت یہ جو کچھ بھی ہوتا ہے ہمارے جسم میں نہیں ہماری روح میں ہوتا ہے ، تُم اسے بندوق یا گولی سے الگ یا بدل نہیں سکتے۔
مضمون📚 : سہائے
سعادت حسن منٹو📖
مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ عورت کی نفسیات کیا ہے؟ جب ان سے پیار کیا جائے تو گھبرا جاتی ہیں اور جب بےاعتنائی برتی جائے تو برہم ہو جاتی ہیں۔
سعادت حسن منٹو 📖
جب کبوتر، کبوتری کو دیکھ کر گٹکتے ہیں تو مرد، عورتوں کو دیکھ کر ایک غزل یا افسانہ کیوں نہ لکھیں، عورتیں کبوتریوں سے کہیں زیادہ دلچسپ خوبصورت اور فکر خیز ہیں۔
سعادت حسن منٹو 📖
جس دن مرزا قادیانی کو اس کے اپنے ماننے والوں نے پڑھ لیا تو پڑھنے کے بعد انہیں پتہ چلے گا کہ مرزا ملعون کس قدر غلیظ ترین اور بدبخت ترین انسان تھا !
منٹو سے اقتباس📖
سعادت حسن منٹو کا اپنے اداکار دوست شیام کے
انتقال پر تبصرہ :-
"شیام بہت بڑا عاشق تھا،وہ ہر خوبصورت شے سے محبت کرتا تھا۔میرے خیال میں موت بھی خوبصورت ہوگی ورنہ وہ کبھی نہ مرتا"
یہ لوگ جو اپنے گھروں کا نظام درست نہیں کر سکتے، یہ لوگ جن کا کردار بے حد پست ہوتا ہے، سیاست کے میدان میں اپنے وطن کا نظام ٹھیک کرنے اور لوگوں کو اخلاقیات کا سبق دینے کے لئے نکلتے ہیں۔
کس قدر مضحکہ خیز چیز ہے!
سعادت حسن منٹو 📖
میں اس بات کا قائل ہُوں کہ اگر عورت سے دوستی کی جائے تو اس کے اندر نُدرت ہونی چاہیے۔ اُس سے اِس طرح ملنا چاہیے کہ وہ تمہیں دوسروں سے بالکل علیحدہ سمجھنے پر مجبور ہو جائے، اُسے تمہارے دل کی ہر دھڑکن میں ایسی صدا سُنائی دے جو اس کے کانوں کے لیے نئی ہو۔
سعادت حسن منٹو📖
لیڈر جب آنسو بہا کر لوگوں سے کہتے ہیں کہ مذہب خطرے میں ہے تو اس میں کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ مذہب ایسی چیز ہی نہیں کہ خطرے میں پڑ سکے، اگر کسی بات کا خطرہ ہے تو وہ لیڈروں کا ہے جو اپنا اُلّو سیدھا کرنے کے لئے مذہب کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔
سعادت حسن منٹو📖
تب میں تارڑ تھا ہی نہیں، میں تو ایک بچہ تھا
میں ”راکھ“ جیسے دس ناول اور بھی لکھ دوں تب بھی منٹو تک نہیں پہنچ سکتا۔ میں وہاں رہتا تھا جہاں منٹو رہا کرتا تھا لیکن آئندہ بھی وہ منٹو کا ہی محلّہ رہے گا۔
~مستنصر حسین تارڑ
منٹو کے لئے 📝
مجھے ہمیشہ آج سے غرض رہی ہے، گزرے ہوئے کل یا آنے والے کل کے متعلق میں نے کبھی نہیں سوچا، جو ہونا تھا ہو گیا جو ہونے والا ہے ہو جائے گا۔
سعادت حسن منٹو 📖
طوائف کا کوٹھا اور پیر کا مزار یہی دو جگہیں ھیں جہاں میرے دِل کو سکون مِلتا ھے.اِن دونوں جگہوں پر فرش سے لے کر چھت تک دھوکہ ھی دھوکہ ھے۔جو آدمی خود کو دھوکہ دینا چاھے اُس کے لیے اِن سے اچھّا مقام اور کیا ھو سکتا ھے۔
سعادت حسن منٹو📖
” زمانے کے جس دور سے ہم اس وقت گزر رہے ہیں۔ اگر آپ اس سے ناواقف ہیں تو میرے افسانے پڑھئے۔ اگر آپ ان افسانوں کو برداشت نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ زمانہ ناقابلِ برداشت ہے۔ مجھ میں جو برائیاں ہیں وہ اس عہد کی برائیاں ہیں “
سعادت حسن منٹو📖