جس شخص کی آپ تصویر دیکھ رہے ہیں یہ ایک گمنام ریاضی دان ہے جسے سابقہ و موجودہ صدی کا عظیم ترین ریاضی دان کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اس کا نام سری نیواسا رمانوجن ہے جو 22 دسمبر 1887 کو بھارت کی ریاست میسور کے شہر ارد میں پیدا ہوا۔ .اس شخص نے کسی سکول میں کوئی رسمی تعلیم حاصل نہ کی
ایک شخص روزانہ مدینہ منورہ سے باہر جا کے ٹیلوں پہ چڑھ کے قافلوں کے مدینہ میں داخل ہونے والے رستے کو دیکھتا رہتا تھا۔کئی کئی گھنٹے اسی طرف نظر جمائے انتظار کرتا رہتا تھا۔کوئی بھی آتا اس سے سوال ہوتا کہ کہاں سے آ رہے ہو۔جی فلاں جگہ سے آ رہا ہوں فلاں غرض سے آ رہا ہوں۔اس شخص کی نظریں
پھر یہی عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں ۔کہ وہ جلولاء کی جنگ میں شریک ہوئے کہ جو 16 ہجری کو سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ کی امارت میں لڑی گئی اور ایرانیوں کو شکست دی گئی۔ اس تاریخی جنگ سے مجاہدین واپس لوٹے تو بے بہا مال غنیمت ساتھ تھا ۔ .اسی مال غنیمت میں بہت سی بکریاں بھی.
ائے عمر کہ عمر بھر رسول کی محبتوں کی بنیاد پر فیصلے کرتے رہے ۔ آپ کے غلام اسلم بیان کرتے ہیں کہ : ." جب جب کوئی عمدہ پھل آتے اور امیر المومنین کا جی چاہتا کہ کھایا جائے تو سب سے پہلے امہات المؤمنین ، ازواجِ مطہرات کے حصے کے برتن بناتے اور پھر باری باری ان کے گھر بھجواتے لیکن.
مسند احمد میں روایت ہے کہ سیدنا عمر نے ایک بار تین بار قسم کھا کر فرمایا : ." کہ کوئی شخص اس مال کا کسی دوسرے سے زیادہ حقدار نہیں اور خدا کی قسم میں خود بھی کسی سے زیادہ حقدار نہیں ہوں مسلمانوں کا ہر ہر فرد اس مال میں برابر کا حصے دار ہے ".
اب سیدنا عمر کی احتیاط دیکھیے ، کہتے ہیں : ." تم اگر وزن کرو گی تو خوشبو تمہاری انگلیوں کو بھی لگے گی اور بھلے تم اس کو صاف کرنے کے لیے اپنے کپڑوں یا گردن پر مل لو تو کچھ نہ کچھ حصہ تمہیں زیادہ آ جائے گا اور یہ مجھے اپنے اہل خانہ کے لیے ہرگز پسند نہیں "۔ .میں نے پہلے لکھا نا کہ.
" تم چاہتے ہو کہ سب سے پہلے میرا نام آئے اور میری وجہ سے تم لوگوں کی بھی شروع کے لوگوں میں حصہ داری ہو جائے ۔.خدا کی قسم ! .ایسا نہیں ہوتا ہو سکتا تمہارا نام تب لکھا جائے گا جب تمہاری باری آئے گی چاہے رجسٹر اور دفتر کے آخری فرد تم ہی کیوں نہ ہو " ۔.سیدنا عمر فاروق رضی اللہ.
ایک روز سیدنا عمر نے چاہا کہ بیت المال سے وظیفہ پانے والوں کی ایک فہرست مرتب کر دی جائے سو اس واسطے ایک رجسٹر وہاں رکھوا دیا اب ملا مرحلہ تھا کہ اس ترتیب سے لکھا جائے۔ .جب کبھی کسی خاندان کا کوئی بڑا بلند منصب پر چلا جاتا ہے تو اس کے خاندان کے لیے گویا وہ باعثِ فخر ہو جاتا ہے.
لیکن دوسری طرف بھی زمانے کا عالی دماغ عمر تھے ۔ فرمانے لگے :؛." یقیناً اعزہ و اقارب کے ساتھ حسن سلوک کا حکم ہے لیکن ان کا حق میرے ذاتی مال پر تو ہو سکتا ہے یہ تو امت کا مال ہے جو بیت المال میں جائے گا اور سب کے حصے میں آئے گا سب کا حق ہوگا بطور عزیز تمہارا کوئی حق نہیں ہے " ۔.
سو سیدنا عمر فاروق نے موتیوں کی وہ ڈبیا ام المومنین سیدہ عائشہ کو بھجوا دی۔ اب دیکھیے کہ خود سیدنا عمر کی اپنی بیٹی بھی ام المومنین تھیں ، لیکن ان کو علم تھا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اولین محبت سیدہ عائشہ ہیں ۔.لیکن اپنے رشتوں کے حوالے سے تو وہ سوچ ہی نہیں سکتے تھے کہ کچھ.
ابھی آپ نے محبت رسول کی بات پڑھی کہ کس طرح سیدنا عمر اپنی محبتوں پر رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبتوں ترجیح دیا کرتے ، تو اس روز بھی کچھ ایسا ہی ہوا ۔ .ہوا یوں کہ عراق فتح ہوا اور مال غنیمت مدینے میں آیا ، اس میں موتیوں کی ایک خوبصورت ڈبیا بھی تھی ۔ اب موتی بھلا تقسیم ہوں.
سیدنا عمر کا چہرہ گویا دمک اٹھا ایسے ہی تو نہیں کہا تھا عبداللہ بارے کہ " عبداللہ جیتا رہے ، میری عمر جیتا رہے " ۔ عبداللہ کا جواب سنا تو امیر المومنین نے بیٹے کو کہا کہ : ." عبداللہ ! وہ جو بکریاں تم جلولاء سے خرید کے لے آئے ہو میں نہیں سمجھتا کہ تم کو ان کی درست قیمت ادا.
پھر یہی عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں ۔کہ وہ جلولاء کی جنگ میں شریک ہوئے کہ جو 16 ہجری کو سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ کی امارت میں لڑی گئی اور ایرانیوں کو شکست دی گئی۔ اس تاریخی جنگ سے مجاہدین واپس لوٹے تو بے بہا مال غنیمت ساتھ تھا ۔ .اسی مال غنیمت میں بہت سی بکریاں بھی.
ایک روز فیصلہ کیا کہ جو اول اول مہاجرین تھے یقیناً وہ معزز و مکرم بھی بڑھ کے تھے سو ان سب کا وظیفہ مقرر کر دیا جائے ۔ ہر ایک کے حصے میں چار ہزار درہم آئے اور عبداللہ بن عمر کی باری آئی تو ان کو ساڑھے تین ہزار دیے ۔ .کسی نے سوال کیا کہ حضرت سب کو چار ہزار اور عبداللہ کو ساڑھے تین.
ہائے عمر کہ عمر بھر رسول کی محبتوں کی بنیاد پر فیصلے کرتے رہے ۔ آپ کے غلام اسلم بیان کرتے ہیں کہ : ." جب جب کوئی عمدہ پھل آتے اور امیر المومنین کا جی چاہتا کہ کھایا جائے تو سب سے پہلے امہات المؤمنین ، ازواجِ مطہرات کے حصے کے برتن بناتے اور پھر باری باری ان کے گھر بھجواتے لیکن.
لیکن عبداللہ بن عمر کے لیے تجویز بھی پیش ہوتی ہے تو سیدنا عمر اس کو رد کرتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک یہ امارت اور خلافت اعزاز نہیں ہے بلکہ جواب دہی ہے کہ روز قیامت ایک ایک فرد کا حساب دینا ہو گا کہ کسی سے زیادتی و ظلم تو نہیں ہو گیا ۔۔ .ہاں تو اس روز قصہ یوں ہوا کہ عبداللہ دل خراب.
لیکن عبداللہ بن عمر کے لیے تجویز بھی پیش ہوتی ہے تو سیدنا عمر اس کو رد کرتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک یہ امارت اور خلافت اعزاز نہیں ہے بلکہ جواب دہی ہے کہ روز قیامت ایک ایک فرد کا حساب دینا ہو گا کہ کسی سے زیادتی و ظلم تو نہیں ہو گیا ۔۔ .ہاں تو اس روز قصہ یوں ہوا کہ عبداللہ دل خراب.
لائق فرزند باپ کا فخر ہوتا ہے ، باپ کی طاقت ہوتی ہے اور باپ کا بازو ہوتا ہے ۔۔۔ اور عبداللہ محض عالم نہ تھے معاملہ فہمی میں بھی کمال کو پہنچے ہوئے تھے سو یہی سبب تھا کہ جب سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ زخمی ہو جاتے ہیں تو بعض اصحاب رسول آپ کو یہ رائے دیتے ہیں کہ :." عبداللہ.